چڑھتے سورج کے پجاری


احوالِ واقعی میں دو  اشخاص کے قصیدے زبانِ زدِعام ہیں. ایک بری فوج کا سر براہ "جنرل راحیل شریف" اور دوسرا تحریک انصاف کا چئیرمین جناب "عمران خان"___

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج "راحیل" کا ستارہ عروج کی انتہاء پر ہے، ہماری دعا ہے کہ ہر طرح کامیابی انکے قدموں کے بوسے لیں، یہ کہتے ہوئے میں کسی جلن کا شکار نہیں ہوں کہ جنرل صاحب کے خلاف کوئی کیچڑ اس لئے نہیں اچھالتا کہ سب اس کی وردی اور عہدے سے مرغوب ہیں،. مثلاﹰ اگر یہی جنرل کسی سول ادارے کا سربراہ ہوتے تو مقبولیت کیساتھ ساتھ نامقبولیت کی بھی انتہاء پر پہنچائے جاتے، کرپشن کے خلاف انکی کاروائیوں کو اگر عوام کا ایک حلقہ سراہتا ہے تو ایک حلقہ ضرور اسکی زندگی اجیرن کرتے، حال  ہی  میں رانا مشہود نے  ڈی جی  نیب پنجاب کی شکایات نیب ہیڈ کو خط لکھ کر لگائی کہ انکے خلاف ذاتیات کی بنیاد پر پنجاب نیب کاروائی کر رہی ہیں. یعنی معاملہ چور اور کوتوال والا ہوگیا.

عمران کی مثال ہمارے سامنے ہیں. خان نے بھی وہی تہیہ کر رکھا ہے جو کہ جنرل راحیل نے طاقت میں آنے کہ بعد کر رکھا ہے، لیکن میڈیا کس طرح دن رات عبادت سمجھ کر خان صاحب پر بےجا تنقید کرتا ہے یہاں تک کہ کچھ نہ بن پائے تو ان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنالیا. کیوں کہ خان کہ پاس وہ طاقت نہیں ہے جو جنرل کہ پاس ہے.

 ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ گھر کو اگ اکثر اپنے چراغ ہی سے لگتی ہے بلکل گھر آگ اور چراغ کی طرح میڈیا کو عمران خان پر ذاتی تنقید کا جواز بڑی حد تک تحریک انصاف کے سپپورٹرز نے ہی مہیا کیاہے. آپ کو یاد ہوگا جب عمران خان نے ریحام خان سے شادی کا اعلان کردیا تو  کسی اور نے نہیں بلکہ تحریک انصاف کہ سوشل میڈیا میں سے کئی لوگوں نے ایک منظم طریقے سے ریحام کے خلاف مہم چلائی. سیاسی مخالفین نے دونوں کی کردار کشی کی جو کہ وہ اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اپنے بھی اس مہم میں شامل رہے جو زیادہ تکلیف دہ بات ہیں.

کچھ لوگوں کو اعتراض خان کی شادی کرنے پر تھا تو کسی کو ریحام خان سے شادی آنکھ نہ بھاتی تھی. کچھ یہاں تک کہہ گئے کہ خان صاحب اگر بارے اپنے شادی کے اپنی پارٹی کارکنان کو اعتماد میں لیتے تو اچھا ہوتا__ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خان ہمارا ذاتی ملازم ہے یا ہمارا سیاسی لیڈر؟ کیا کسی سیاسی لیڈر کی ذاتی زندگی نہیں ہوتی اگر جواب ہاں میں ہے تو سیاسی لیڈرز اپنی ذات تک محدود فیصلوں سے پہلے عوام بھی عوامی ریفرنڈم کرائے گی؟ دوست فرمانے لگے کہ چونکہ خان پبلک فگر ہے لہذا شادی  پر کسی قسم  کا اعتراض  کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہیں. سبحان الله یعنی کسی پبلک فگر کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی؟

خرافات  کی  بنیاد یہاں سے پڑی  لیکن یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ آنے والے ہر موقع ریحام خان کو نشانہ بنایا گیا. ہری پور بائے الیکشن کی مثال ہمارے سامنے ہیں، مخالفین کی تنقید کا ذکر ہی کیا، موافقین نے بھی ریحام کو نہین بخشا جب تحریک انصاف کے امید وار ہی کی درخواست پر ہری پور مہم چلانے پہنچ گئی اور بھرپور مہم چلائی تو شکست کا سارا ملبہ ان پر ہی گرا دیا گیا، پھر عمران کا ٹوئیٹر پر پراپیگنڈا بند کرنے کی اپیل پر ہر مخلص انصافی کا سر شرم سے جھک گیا.

 ہم لوگ مغرب کی شفاف جمہوریت کی مثالیں دے دیکر اور ان  کی  واہ واہ کرکے نہیں تھکتے جب کہ ونہاں صدر - وزیر اعظم اور دیگر سیاسی لیڈرز الیکشن مہم میں بھرپور طریقے سے شریک رہتی ہیں. یقینا ہم اپنے لیڈر سے مخلص نہیں ورنہ کسی منطق کہ بغیر بے جا تنقید کم از کم لکھاری کی سمجھ سے تو باہر ہے

پھر ایسے حالات میں جب اپنے ہی نشیمن پہ بجلیاں گرا رہے ہوں تو میڈیا اور مخالفین کو سنہری موقع ہاتھ آیا ہے کہ خان صاحب کی ذاتی زندگی کو سر عام  اچھالا جائے. کیوں کہ مخالفین جان گئے ہیں کہ تحریک انصاف کے  سپورٹرز ہی اب منقسم  ہو  چکے ہیں. اور زیادہ مزاحمت نہیں ہو گی. تازہ مثال جناب عارف نظامی صاحب کے شوشے کی ہے جنہوں نے خان صاحب کی شادی کو ہی ناکام قرار دے دیا اور کہا تعلقات اس موڑ پر ہیں کہ خدانخواستہ طلاق کا بری خبر خبروں کی زینت بنیں . قومی میڈیا کہ رویے کا ہمیں پتا ہے لیکن اس ضمن میں، میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف سپورٹرز کو رسپانس کرنے میں تاخیر ہوئی، اور قہ بھی کمزور رہا کہ سوشل میڈیا پر اب کئی گروہ بن چکے ہیں. اور سب سے بری بات یہ کہ کے کئی لوگ ریز لب یہ خبر سن کہ خوش نظر آئے (جی ہاں ان کا تعلق بھی انصافی قبیلے سے ہے) اور آخر خان صاحب کو ایک دفع پھر خود ہی وضاحت دینی پڑی.

دوستو!!! یہ ہماری حالت ہے جس کو لیڈر کہا اور کل تک اس کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پہ تھا آج اسی کہ فیصلے غلط ہیں شاید اس کہ سپورٹرز ٢-٣ سال میں انکی اپنی ١٨ سال جد و جہد کے مقابلے زیادہ سیاسی شعور پا چکے ہیں. یا یوں کہ خان سے لوگ بور ہو چکے ہیں، چونکہ آج کل راحیل شریف صاحب کا زمانہ ہے. اور ہم بحیثیت قوم دل بہلانے کی خاطر  کچھ نئے کی تلاش میں رہتے ہیں لہذا راحیل شریف صاحب اس کام کے لئے موزوں ہیں.  کل اگر جنرل راحیل چلے جایں گے تو میڈیا ان پہ بھی طرح طرح کی باتیں کرے گا اور پھر یہی ریت برقرار رہے گی. یعنی عوام راحیل شریف کو  بھی لتآڑ ے گی. 

خان ایک سیاسی لیڈر ہے اس کی سیاست پہ بات کریں. خان پاکستان کی امید ہے ان کہ ہاتھ مضبوط کریں نہ کہ اس کو کمزور جان کر مشکل میں اس کا ساتھ چھوڑ دیں. جیسے کہ بچوں کو جب نیا کھلونا ملتا ہے تو  وہ پرانا پھینک دیتے یا  بھول جاتے ہیں.

خان کہ پاس بھی جنرل جیسے اختیارا ت  ہوتے تو وہ بھی ایسی شدت سے کاروائی کر رہا ہوتا. کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ خیبر پختون خواہ میں کرپشن کہ خلاف کاروائیوں کی  کس  قدر سخت سیاسی و انتظامی مخالفت جاری ہے. خان کی جگہ کوئی کمزور ہوتا تو  کب کا سب چھوڑ کہ جا چکا ہوتا لیکن خان کا ارادہ مضبوط اور یقین کامل ہے. خان اس ملک سے سچا  ہے تبھی ١٩٩٦ سے لے کہ اب تک ہر طرح کے مسائل و مشکلات  کہ باوجود ہمارے لئے پاکستان کے لئے کھڑا ہے. ورنہ خان کو برطانیہ میں رہنا اور عیش و عشرت کی زندگی گزرنا کچھ مشکل نہ تھا .  اگر آپ خان کا ساتھ نہیں دے سکتے تو کم از کم خان کی  ذاتی زندگی پہ کیچڑ اچھالنے والوں کا ساتھ نہ دیں. خان اور جمائما کا ساتھ بھی زہریلے اور بے جا پروپگنڈے کی وجہ سے ختم ہوا تھا.  

 الله ہم سب کو ہدایت دے ورنہ ہم من حیث القوم قحط الرجال کا شکار ہیں.


تحریر: عمیر خان
بشکریہ مدیر: پروفیسر حمزہ

No comments:

Post a Comment