جمہوری منہ زور گھوڑا


ابھی کچھ دنوں پہلے تک ایک امید بندھی چلی تھی کہ شاید آپریشن بالعموم پاکستان اور بلخصوص کراچی کا کچھ بھلا کر جاۓ گا. کراچی سے طالبانی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ 'بھائی' دہشتگردی کا بھی خاتمہ ہو جاۓ گا. جنرل راحیل و رضوان کالی گھٹا میں امید کی کرن لگ رہے تھے.

امید یہ تھی کہ 'مقبوضہ' کراچی آزاد ہونے کہ بعد پنجاب میں بھی اسی طرز پہ کاروائیاں شروع ہوں گی اور بڑے پارلیمانی اور غیر پارلیمانی مگر مچھ وں پہ بھی ہاتھ ڈالا جاۓ گا. سندھ میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کہ بعد کچھ دن تک تو سیاسی لوگوں کی ٹانگیں کانپی لیکن پھر کمال مہارت کےساتھ مک مکا فارمولا آزمایا گیا اور دہشتگردی کی مالی اور طبعی معاونت کے واضح ثبوتوں کے باوجود جناب (ہڈی والے ڈاکٹر) کا کیس وفاقی محتسب ادارے کو سونپ دیا گیا. سب ہی جانتے ہیں کہ  وفاقی محتسب 'انصاف جہانگیری' کی جدید زندہ مثال سے کم نہیں.  یوں 'جمہوریت' کے ایک اہم رکن  پیپلز پارٹی کو بچا لیا گیا.

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیشرفتوں (یعنی قاتلوں کا پکڑے جانا اور اقرار جرم کر لینا) کے بعد لگ رہا تھا کہ ایم کیو ایم کے الطاف حسین و دیگر بڑے دہشت گرد نما رہمنا تو ضرور برطانیہ میں سولی چڑھ جایئں گے. لیکن کمال مہارت دیکھئے قتل برطانیہ میں شہری برطانیہ کا اور مقدمہ پاکستان میں. سب ہی جانتے ہیں کہ ہماری FIA افسانوی کردار شرلاک ہومز کی حقیقی مثال ہے. یوں 'جمہوریت' کے ایک اہم رکن ایم کیوایم  کو بھی بچا لیا گیا.

ایم کیو ایم نےاس مقدمے کا بھی خوب فائدہ اٹھایا اور کراچی میں ایک دفعہ پھر 'جاگ مہاجر جاگ' کا نعرا بلند کیا. لوگوں نے بھی نعرے کا اثر لیا اور بڑی تعداد میں ایم کیوایم کو  ووٹ ڈالا.

یہ سب کچھ یقینی طور پہ راحیل و رضوان با خبر نظروں سے بھی گزر رہا ہو گا. مجھ جیسے وطن پرست لوگوں کا سوال یہ ہے کہ کیا جنرلز بھی 'جمہوریت' کے منہ زور گھوڑے کہ سامنے ہار مان گئے؟ کیا آپ بھی پاکستان کو سیاسی درندوں کہ رحم و کرم پہ چھوڑ دینا چاہتے ہیں؟

باقی عوامی جمہوری اکثریت (میٹرو والی، بھٹو والی، اور مہاجر کارڈ والی) کیلئے میر تقی میر کہ اس شعر پہ تحریر ختم کرتا ہوں.

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا


تحریر: عمیر خان 
مدیر: پروفیسر حمزہ

No comments:

Post a Comment